The Criminal Novel By Anjum Iqbal
The Criminal Novel By Anjum Iqbal
" ارحاء آپی، ابتسام اور ایک اور شخص آئے ہیں، ڈیڈ نے آپ دونوں کو نیچے بلایا ہے"۔
دائم نے حیران نظروں سے دونوں کو بتایا وہ ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر خوش بھی تھا اور حیران بھی، عنایہ کی تبدیلی سب کو اچھی لگ رہی تھی۔
جبکہ ابتسام کے نام پر نہ جانے کیوں عنایہ کا دل دھڑک رہا تھا۔
اسکے کہنے پر ارحاء نے کھڑکی سے نیچے جھانکا، ابتسام کے ساتھ کھڑے شخص کو دیکھ کر اسکی سانسیں بےترتیب ہونے لگیں۔
" اوکے تم دونوں جائو میں آتی ہوں " اس نے ان دونوں کو نیچے بھیجا اور خود الماری کی طرف چلی آئی اور ہاتھ بڑھا کر اس خفیہ چیز کو باہر نکالا جو وہ انتہائی خطرناک حالات میں نکالتی تھی۔
وہ ایک چمکتی ہوئی پسٹل تھی، اسے باہر نکال کر رومال سے لپیٹ کر اس نے اپنے پیچھے کرلیا اور نیچے چلی آئی۔
" اسلام وعلیکم " اس نے آتے ہی سلام کیا، وہاں سب موجود تھے سوائے اسکے، ارحاء نے شکر کا سانس لیا، مطلب میں بلاوجہ اسے لے کے آئی، اس نے کوفت سے سوچا۔
" کیسے ہو بندر؟" ارحاء نے مسکراتے ہوئے ابتسام سے پوچھا۔
ایم ایچ کے اظہار کے بعد ارحاء ابتسام کو اور بھی عزیز اور معتبر لگنے لگی تھی۔
" میں ٹھیک آپ کیسی ہیں؟"
" فٹ الحمدللہ " وہ مسکرائی۔
پھر کچھ دیر یہاں وہاں کی باتیں کر کے وہ سب ایک ایک کر کے اٹھتے چلے گئے۔
ارحاء کو بھی لگا کہ جیسے ابتسام عنایہ سے کوئی بات کرنا چاہتا ہے، وہ مسکرائی اور باہر لان میں چلی آئی۔
" شکر ہے وہ واپس چلے گئے " اس نے ٹھنڈی سانس لی اور لان میں رکھے بینچ پر بیٹھ گئی۔
اس نے آہستہ سے اپنے اسکارف کو ڈھیلا کیا اور اپنے بال سیٹ کرنے لگی۔
ان دونوں کی آمد کا سن کر اس نے کھلے بالوں پر ایسے ہی اسکارف لے لیا تھا، جس سے اب اسے الجھن ہورہی تھی۔
"چچ" آخر اس نے اندر کی طرف ایک نظر کی اور اپنے اسکارف کو نکال لیا اور بالوں کو لپیٹنے لگی۔
وہ آنکھیں بند کیے اپنی لٹیں پیچھے اڑس رہی تھی جب اسے اپنے قریب قدموں کی آواز سنائی دی اس نے ایسے ہی آنکھیں کھول کر دیکھا اور شاکڈ رہ گئی۔
وہ اسکے سامنے کھڑا اسے یک ٹک دیکھے جارہا تھا ارحاء نے فورا اسکارف سر پہ اوڑھا اور کھڑی ہوگئی۔
اپنے سامنے اسے دیکھ کر اسے ہسپتال میں کہی اپنی باتیں یاد آئیں تو اسے شرمندگی ہونے لگی، وہ اسے دیکھے بغیر آگے بڑھنے لگی جب اس نے اپنا ہاتھ آگے کر کے اسکے جانے کا راستہ روک لیا۔
ارحاء بری طرح گھبرا رہی تھی، اور اسکی یہ گھبراہٹ سامنے کھڑے شخص کو لطف دے رہی تھی۔
وہ جو ہمیشہ بہادر بنی پھرتی تھی آج گھبرا رہی تھی لیکن اسکی یہ گھبراہٹ تھوڑی دیر کی تھی، آخر اسکی برداشت ختم ہوگئی۔
" ہٹیں میرے راستے سے " اس نے سامنے والے کی آنکھ میں دیکھا لیکن وہاں محبت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر آباد تھا، وہ ان لو دیتی نظروں سے گھبرا رہی تھی۔
" نہیں ہٹا تو؟" اسے مزہ آرہا تھا ارحاء کو ستانے میں۔
ارحاء دو قدم پیچھے ہوئی اور رومال اسکے سامنے کیا جس سے صاف لگ رہا تھا کہ اس میں کیا چیز ہے۔
اسے پہلے شاکڈ لگا، پھر اسکے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔
وہ تھوڑا پیچھے ہوا اور اپنا سینہ تان کر کھڑا ہوگیا۔
" چلائو گولی، تمہارے ہاتھوں مرنا بھی قبول ہے " وہ مسکرا رہا تھا ارحاء اسکی آنکھوں میں دیکھ ہی نہیں پارہی تھی۔
" کون سی مووی دیکھ کر آئیں ہیں؟" اس نے طنز کیا جس پر وہ دھیرے سے ہنس دیا۔
" ہاں ویسے یہ صرف ڈائیلاگ ہی ہے حقیقت مت سمجھنا اسے" وہ تھوڑا آگے بڑھا جب ارحاء نے اسے خبردار کیا۔
" آگے نہیں بڑھنا ورنہ " اس نے ٹریگر پر ہاتھ رکھا۔
" چلائو " اسے یقین تھا کہ وہ نہیں چلائے گی۔
" ارحاء الیاس کو چیلنج نہیں کرنا" وہ مسکرا رہی تھی۔
" میں کرتا ہوں چیلنج، چلائو " وہ بھی مسکرا رہا تھا جب ہی ارحاء نے ٹریگر دبا دیا۔